WhatsApp

Khwaja Saraon k Bary main Quran Kya Kehta hai..?

خواجہ سراؤں کے بار ے میں قرآن کیا کہتا ہے ؟

خواجہ سراؤں کے بار ے میں قرآن کیا کہتا ہے ؟
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بہت واضح الفاظ میں فرمایا ہے کہ دنیا میں ہر مخلوق کو جوڑے کی صورت میں پیدا کیا گیاہے ۔ اِس میں جانور ، انسان ،حتی کہ نباتات تک شامل ہیں۔میرا سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی قوم کی صورت میں’ خواجہ سرا’ ہمارے معاشرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔اُن کی زندگی پر میڈیا مختلف ڈرامے پیش کرتا ہے۔لوگ اپنی خوشی کی محفلوں میں اُن کو تفریح کے لیے بلاتے ہیں یا یہ خود پہنچ جاتے ہیں۔کوئی اِن پر ہنستا ہے،کوئی اِن سے لطف اٹھاتا ہے توکوئی اِن پر ترس کھاتا ہے۔ایک ایسی مخلوق جسے انسانی معاشرہ کوئی مقام دینے کو تیار نہیں ہے،کیا قرآن یا حدیث میں اِس کا کوئی ذکر یا حوالہ موجود ہے؟
یہاں آکر میری سوچ رک جاتی ہے۔میری ناقص معلومات میں اِس مخلوق کا کوئی ذکر اسلامی نقطہ نظر سے میری معلومات میں نہیں ہے۔برائے کرم کیا آپ میری معلومات میں اضافہ کریں گے ؟:جوابپہلی بات تو بجا طور پر درست ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ : وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ۔ ”اور ہم نے ہر چیز کے جوڑے بنائے ہیں تاکہ تم (اِس حقیقت کی )یاد دہانی حاصل کرو (کہ اِس دنیا کا بھی ایک جوڑا ہونا چاہیے)”(الذاریات  51:49) ۔ مخلوقاتِ دنیا کی تخلیق میں یہ اللہ تعا لیٰ کے عمومی اُصول کا بیان ہے ۔تاہم،جیساکہ آگے واضح ہوگا، ہمارے نزدیک اِس بات کا سائل کے اصل سوال سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔جہاں تک خواجہ سراؤں کے بارے میں اصل سوال کا تعلق ہے تو پہلی بات تو یہ واضح رہے کہ اُنہیں کسی ‘ قوم’ کا عنوان دیا جاسکتا ہے،نہ اُنہیں کوئی الگ ‘مخلوق’ ہی شمار کیا جاسکتا ہے؛ جیساکہ خود سائل کے الفاظ سے بظاہر معلوم ہوتا ہے۔ہمارے نزدیک یہ دونوں ہی عنوانات خواجہ سراؤں کے لیے مناسب نہیں ہیں۔نہ وہ کوئی الگ’ مخلوق’ ہیں اور نہ ہی کوئی ‘ قوم’۔وہ انسان ہی ہیں۔خلقی اوصاف کے اعتبار سے اُن میں سے بعض کامل مردانہ اوصاف سے محروم ہوتے ہیں اور بعض زنانہ اوصاف سے۔یہ اُن کی تخلیق کا وہ نقص ہے جو اُن کے خالق اور پروردگار نے اُن میں ایسے ہی رکھا ہے جیسا کہ بعض انسانوں کو ہم خلقی اعتبار سے بعض دوسرے اعضا سے پیدایشی طور پر معذور پاتے ہیں۔اُن کے اور اِن کے مابین فرق محض ناقص اعضا کے اختلاف کاہے ۔یہ خوا جہ سراآج کی دنیا ہی میں پیدا نہیں ہوئے ہیں،بلکہ ماضی میں بھی ایسے خوا جہ سرا انسانوں کے مابین پیدا ہوتے رہے ہیں۔ بعض روایتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بھی ایسے بعض ناقص مردوں اور عورتوں کے وجود کا تذکرہ ملتا ہے۔قرآن مجید میں خوا جہ سراؤں کا براہ راست کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ اور یہ تذکرہ نہ ہونا قرآن اور اُس کی دعوت میں کوئی نقص واقع نہیں کرتا۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ قرآن میں پیدایشی نابینا انسانوں کا کوئی تذکرہ نہیں ہے؛سماعت سے معذور افراد کا کوئی تذکرہ نہیں ہے؛ ہاتھوں سے معذور پیدا ہونےوالے انسانوںکا بھی کوئی تذکرہ نہیں ہے۔۔۔۔وغیرہ۔ اِس طرح کے انسانوں کی یہ معذوری ہی ہے جس کی وجہ سے اِنسانی معاشرہ بالعموم انہیں دوسرے درجے کا انسان سمجھتا ہے ۔
دنیا اور اُس کی مخلوقات میں اِس طرح کے بعض نقائص جو اللہ تعالیٰ نے رکھے ہیں، یہ ظاہر ہے کہ آزمائش کے اُصول پر رکھے ہیں۔ایسے اِنسان جو کسی اعتبار سے معذور پیدا کئے گئے ہیں،وہ اگر خود کامل عقل وشعور رکھتے ہیں تو اُن کا امتحان ، اِس دنیا میں صبر کا امتحان ہے؛ دوسرے اِنسانوں کے لیے یہاں اُن کو دیکھ کر اپنے پروردگار کی شکرگزاری بجالانے کا امتحان ہے ،اور تمام اِنسانیت کے لیے ایک عمومی درس اِس طرح کے نقائص کے وجود میں یہ ہے کہ یہ دنیا اپنی تمام تر خوبیوں ، خصائص اور نعمتوں کے باوجود بہر حال دار النقائص ہے،دار الکمال نہیں ہے

0 comments:

Post a Comment

Thanks For Your Feedback

 
Top